Thursday, 24 November 2016

والدین کی قربانیوں کی قدر کیجئے



بہت عرصہ پہلے ایک جگہ سیب کا ایک بہت بڑا درخت تھا ور روزانہ ایک بچہ وہاں آکر اس درخت کے ارد گرد کھیلا کرتا تھا وہ بچہ اس درخت کی ٹہنیوں سے چمٹ چمٹ کر اس کی چوٹی پر چڑہتا اس کے سیب کھاتا اور تھک کر اس کے سایے کے نیچے لیٹ کر مزے سے اونگھتا وہ بچہ اس درخت سے محبت کرتا تھا اوروہ درخت بھی اس سے محبت کرتا تھا اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا. وقت گذرا اور بچہ بڑا ہو گیا

اور پھر بچہ ہر روز درخت کے ارد گرد نہیں کھیلتا تھا ایک دن بچہ واپس آ گیا لیکن وہ دکھی تھا، درخت نے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو، بچے نے جواب دیا میں اب اتنا چھوٹا نہیں رہا کہ درختوں کے ارد گرد کھیلوں مجھے کھلونے چاہیں ، اور کھلونے خریدنے کے لیے مجھے پیسے چاہیں، درخت نے کہا "" "میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں" "" لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ تم میرے سارے کے سارے سیب لے لو اور انہیں بیچ دو تاکہ تمہیں پیسے مل جائیں

بچہ بہت ہی خوش ہو گیا بچہ درخت پر چڑھا اور سارے سیب توڑ لیے اورخوشی خوشی وہاں سے چلا گیادرخت نے اپنے سارے پھل کھو دیے لیکن اس کی خوشی سے بہت ہی کم تھا وہ خوشی جو اسے بچے کی خوشی دیکھ کر ہوئیلیکن درخت کی خوشی کچھ زیادہ دیر تک نہ رہ سکی کیونکہ، بچہ سیب لے جانے کے بعد واپس نہیں آیالہذا درخت دکھی ہو گیا

پھر ایک دن اچانک وہ بچہ واپس آ گیا لیکن اب وہ ایک مرد بن چکا تھا درخت اس کے آنے پر بہت ہی زیادہ خوش ہوا اور اس سے کہا آؤ میرے ساتھ کھیلو، بچے نے جواب دیا میرے پاس کھیل کے لیے وقت نہیں کیونکہ مجھے اپنے بیوی بچوں کے لیے کام کرنا ہے میں ایک گھر چاہیے جو ہمیں تحفظ دے سکےکیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟ مجھے افسوس ہےمیرے پاس تو کوئی گھر نہیں لیکن تم اپنا گھر بنانے کے لیے میری ٹہنیاں اور شاخیں کاٹ سکتے ہو

اس آدمی نے درخت کی ساری ہی ٹہنیاں اور شاخیں لے لیں اورپھر خوشی خوشی سے چلا گیا جس طرح وہ پہلے اس کے پھل لے کر چلا گیا تھا درخت اس کو خوش دیکھ کر پھر سے بہت خوش ہوا اور وہ ایک دفعہ پھر غائب ہو گیا اور درخت کے پاس واپس نہ آیا درخت ایک دفعہ پھر اکیلا ہو گیا، دکھی ہو گیا، پھر ایک لمبے عرصے کے بعد، گرمیوں کے ایک گرم دن میںوہ آدمی واپس آیا اوردرخت ایک دفعہ پھر خوشی کی انتہاء کو چھونے لگا اب ہی شاید یہ میرے ساتھ کھیلے، آؤ میرے ساتھ کھیلو درخت نے کہا،

آدمی نے درخت سے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ کسی دریا میں کشتی رانی کرتے ہوئے کسی پرسکون جگہ میں جا پہنچوں آدمی نے درخت سے کہا کیا تم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟ درخت نے کہا تم میرا تنا لے کر اس کی کشتی بنا لو اس طرح تم اس کے ذریعے دور تک جا سکتے ہو اور خوش ہو سکتے ہو، تو اس آدمی نے درخت کا تنا کاٹ لیا اور اس کی کشتی بنا لی اور پھر آدمی کشتی میں سوار ہو کر چلا گیا اور ایک لمبی مدت تک واپس نہ آیا آخر کار دیر تک غائب رہنے کے بعد وہ آدمی واپس آیا اسے دیکھ کر درخت نے دکھ سے کہا

مجھے افسوس ہے میرے بیٹے کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لیے اور کچھ نہیں اور کہا تمارے لیے اب اور سیب بھی نہیں ہیں، آدمی نے کہا کوئی بات نہیں اب میرے دانت بھی نہیں جن سے میں سیب کو کاٹ سکتا، تمارے کودنے پھاندنے کے لیے اب میرا تنا بھی نہیں، تو آدمی نے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ایسا کام نہیں کر سکتا،

درخت نے کہا، میرے بیٹے اب میرے پاس واقعتا کچھ بھی نہیں جو میں تمہیں دے سکوں اب صرف میری مرتی ہوئی جڑیں ہی بچی ہیں درخت نے روتے ہوئے آنسوؤں سے لبریز آواز میں کہا، آدمی نے کہا، اب مجھے صرف کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں سکون سے آرام کر سکوں، بہت اچھی بات ہے بوڑھے درخت کی بوڑہی جڑیں تمارے آرام کرنے کے لیے بہت اچھی جگہ ہیں، درخت نے کہا، آؤ میرے ساتھ بیٹھو تا کہ تم سکون پاؤ ،،، آ جاؤ ،،، آدمی درخت کے پاس آ بیٹھا درخت پھر سے خوش ہو گیا مسکرایا اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں،

کیا آپ جانتے ہیں یہ درخت کون ہے ؟؟؟ یہ درخت آپ کے والدین ہیں ،،،، اپنے والدین کی قربانیوں کی قدر کیجئے، آپ ان کا حق تو کبھی بھی ادا نہیں کر سکتے مگر انکی خوب خدمت اور فرمانبرداری کیجئے تا کہ آپ کی دنیا اور آخرت سنور جائے ان شاء الله! اللہ سوہنا ہم سب کو سمجھ کر عمل کی توفیق دے، آمین

Post a Comment

Search This Blog

Powered by Blogger.

Labels

favourite category

...
test section describtion

Whatsapp Button works on Mobile Device only