Pakistan
Home
Dil E Nadan
Saturday, 10 December 2016
Home
Urdu Stories
چالاک دکان دار
ZAHID IQBAL
December 10, 2016
0 comment
Share
Tweet
Share
Share
Pin
Share
یہ ایک بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک تھا شکاری، لیکن، وہ دوسرے شکاریوں کی طرح نہیں تھا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی جانور کو نہیں مارا تھا۔ وہ کسی جان دار کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا ہی نہیں سکتا تھا۔ بس اس کے پاس ایک جال تھا اور ایک بانسری، جس پر وہ بہت سریلی دھنیں بجایا کرتا تھا۔ وہ روزانہ جنگل میں جاتا، جال بچھاتا اور جال سے کچھ دور جا کر بانسری بجانے لگتا۔ اس کی بانسری کی دل کش آواز سن کر پرندے اڑے چلے آتے۔ وہ انتظار کرتا اور جیسے ہی کوئی پرندہ اس کے جال کے پاس آتا، وہ رسی کھینچ کر اسے جال میں بند کر لیتا، پھر وہ اس پرندے کو دانہ کھلاتا، ان کا خیال رکھتا اور ان کی پیاری پیاری آوازیں سنتا۔ جب کبھی اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی تو وہ ان میں سے دو تین پرندے بیچ دیتا۔
پرندوں کے اس شکاری کا ایک بیٹا تھا، جس کا نام بہزاد تھا۔ بہزاد ابھی چھوٹا ہی تھا کہ شکاری بیمار پڑا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ بہزاد اور اس کی امی کے پاس جو پیسے تھے، وہ جلد ہی ختم ہو گئے اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ زندگی بڑی مشکل سے گزرنے لگی۔ بہزاد چھوٹا تھا، مگر بہت ہمت اور صبر والا تھا۔ کام کاج میں اپنی امی کی مدد کرتا اور جو وقت ملتا، اس میں وہ جنگل چلا جاتا، جہاں اس کے ابو پرندے پکڑا کرتے تھے۔
آخر ایک روز اس نے اپنی ماں سے کہا: "امی اب میں بچہ نہیں رہا۔ پندرہ سال کا ہو گیا ہوں۔ ابو کے بعد آپ نے بہت محنت کی ہے۔ اب آپ مجھے ابو کا جال اور بانسری لا دیجئے۔ کل سے میں بھی جنگل جا کر پرندے پکڑا کروں گا۔" اس کی امی جانتی تھی کہ وہ بڑا بہادر لڑکا ہے اور جنگل کا چپا چپا اس نے دیکھ رکھا ہے، اس لیے انھوں نے اسے بانسری اور جال لا کر دے دیا۔
اگلی صبح بہزاد جلدی اٹھ گیا اور جنگل کو چلا۔ نہ اسے کسی چیز کا ڈر تھا نہ یہ خیال کہ راستہ بھول جاؤں گا، کیوں کہ وہ جنگل کے ایک ایک درخت کو پہچانتا تھا۔
گھنے جنگل میں دور تک نکل گیا اور بانسری بجانے لگا، لیکن پورے دن میں ایک پرندہ بھی اس کے پاس نہ آیا۔ آخر جنگل میں شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تو وہ تھکا ماندہ خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا۔ اس کی امی جانتی تھیں کہ یہی ہو گا۔ پرندے پکڑنا اتنا آسان نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی دن میں یہ کام سیکھ لے، انھوں نے بیٹے کو تسلی دی اور سمجھایا: "بیٹے! تمھارے ابو بھی فوراً پرندے پکڑنے میں ماہر نہیں ہو گئے تھے۔ ابھی تمھیں اس کام کو سیکھنے میں بہت محنت کرنی پڑے گی۔"
بہزاد ہمت ہارنے والا نہیں تھا۔ اس نے مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رکھا۔ آخر آہستہ آہستہ اسے بانسری پر خوبصورت دھنیں بجانا، اپنے آپ کو پرندوں سے چھپانا اور بغیر ہلے جلے صبر سے دیر تک بیٹھنا آ گیا اور پرندے اس کے جل میں پھنسنے لگے۔ ایک دن اس کے جال میں ایک بہت عجیب اور خوب صورت پرندہ پھنس گیا۔ اس کے پر سات رنگوں کے تھے۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا اور اس پرندے کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اگلی صبح جب وہ اٹھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پرندے نے ایک خوبصورت انڈا دیا تھا۔ وہ انڈا بھی سات رنگوں کا تھا۔
بہزاد نے سوچا کہ یہ انڈا بازار میں جا کر بیچ دینا چاہیے، تاکہ کچھ پیسے ہاتھ لگیں۔ جب وہ انڈا لے کر بازار پہنچا تو اسے دکان دار نے دیکھ لیا۔۔ یہ دکان دار بہت چالاک اور لالچی تھا۔ اس کا کام ہی غریب لوگوں کو دھوکا دینا اور سستی چیزیں مہنگی بیچنا تھا۔ بہزاد کے ہاتھ میں رنگین انڈا دیکھتے ہی اس نے فوراً آواز دی: "اے سنو! کیا یہ انڈا بیچتے ہو؟ میں اسے خریدتا ہوں۔"
بہزاد جانتا تھا کہ وہ دکان دار برا آدمی ہے۔ اس کی چالاکی اور لالچ دیکھ کر بہزاد نے کہا: "ہاں، دس روپے کا ہے!" بہزاد کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چالاک دکاندار نے اس انڈے کی قیمت کم کرانے کی کوشش نہیں کی اور اسے دس روپے دے کر انڈا لے لیا۔ بہزاد نے بازار سے سودا خریدا اور گھر آ گیا۔ اگلی صبح اس نے دیکھا کہ پرندے نے پھر ایک ویسا ہی رنگین انڈا دیا ہے۔ یہ انڈا بھی اس نے اس چالاک دکان دار کو بیچ دیا۔ اس طرح وہ پرندا روزانہ ایک خوبصورت اور رنگین انڈا دیتا اور بہزاد اسے بیچ آتا اور یوں ماں بیٹے مزے سے گزر بسر کرنے لگے۔
ایک دن بہزاد کو خیال آیا کہ یہ چالاک دکان دار اتنا مہنگا انڈا خرید کر کیا کرتا ہے۔ ضرور اسے بہت زیادہ قیمت پر آگے بیچتا ہو گا۔۔ یہ سوچ کر اس نے ایک دن دکان دار کا پیچھا کیا۔ دکان دار انڈا خرید کر محل پہنچا اور بہزاد سمجھ گیا کہ وہ دکان دار اس سے روزانہ انڈا خرید کر بادشاہ کو مہنگے داموں بیچ آتا ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ کیوں نہ میں خود انڈا لے کر بادشاہ کے پاس جاؤں اور زیادہ رقم پاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ نے اسے ایک انڈے کے سو روپے دیے۔ جب چالاک دکان دار نے دیکھا کہ بہزاد اب اسے انڈے نہیں بیچتا، بلکہ خود محل میں جا کر بادشاہ کو بیچ آتا ہے تو اسے بڑا غصہ آیا۔
بہزاد کو سبق سکھانے کے لیے وہ ایک دن بادشاہ کے پاس گیا اور کہا: "بادشاہ سلامت! آپ بہزاد سے اتنا مہنگا انڈا کیوں خریدتے ہیں؟ یہ انڈے تو آپ کو بالکل مفت میں مل سکتے ہیں۔ بہزاد کے پاس ایک عجیب اور خوب صورت پرندہ ہے، جو یہ انڈے دیتا ہے۔ آپ اس سے یہ پرندہ چھین لیجیئے۔ آپ کے پاس انڈہ اور پرندہ مفت میں ہوں گے۔"
بادشاہ نے بہزاد کو حکم دیا کہ پرندہ فوراً لے آؤ۔ بہزاد سمجھ گیا کہ یہ چالاک دکان دار کی شرارت ہے، کیوں کہ بادشاہ اتنا بےوقوف ہے کہ وہ کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ انڈے کہاں سے آتے ہیں، لیکن وہ مجبور تھا، کیوں کہ بادشاہ کا حکم نہ ماننے پر اسے کوئی سخت سزا بھی دے سکتا تھا۔ بہزاد نے اپنا پرندہ بادشاہ کو دے دیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے اپنی بانسری اور جال اٹھایا اور جنگل کو نکل گیا۔ اس نے ایسی دل کش بانسری بجائی کہ جنگل کے کونے کونے سے پرندے نکل نکل کر اس کے پاس آنے لگے۔ اس کے جال میں کبھی تیتر پھنستا، کبھی فاختہ تو کبھی بلبل۔ ان کو بیچ کر دونوں ماں بیٹے ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
بہزاد پورے شہر میں مشہور ہو گیا۔ جب کسی کو کوئی پرندہ پالنا ہوتا، وہ بہزاد کے پاس آتا اور اس سے پرندہ خرید کر لے جاتا۔ چالاک دکان دار نے یہ دیکھا تو بہزاد سے کہا: "یہ پرندے تم مجھے بیچا کرو۔" بہزاد سمجھ گیا کہ وہ اس سے پرندے سستے خرید کر لوگوں کو مہنگا بیچے گا، اس لیے اس نے انکار کر دیا۔
چالاک دکان دار کو بہت غصہ آیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا: "بادشاہ سلامت! آپ نے جو پرندہ بہزاد سے لیا تھا، وہ اکیلا ہونے کی وجہ سے اداس رہتا ہے۔ آپ بہزاد سے کہیے کہ ایسا ہی ایک اور پرندہ پکڑ لائے، تاکہ آپ کا پرندہ اپنے ساتھی کے ساتھ خوش رہے۔"
بادشاہ کی کھوپڑی میں بھوسا بھرا پوا تھا۔ اس سے سوچا کہ دکان دار ٹھیک کہتا ہے۔ اس سے بہزاد کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ میرے پرندے کا ساتھی، ایسا ہی ایک اور پرندہ پکڑ لاؤ، ورنہ تمھاری خیر نہیں۔ بہزاد نے کچھ کہنے کی کوشش کی، لیکن بادشاہ نے کہا: "میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ میں تمھیں چالیس دن کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر چالیس دن کے اندر اندر تم ایسا ہی ایک اور پرندہ نہ لائے تو تم کو جان سے مار دیا جائے گا۔"
بہزاد پریشان تو ہوا، لیکن اس نے حوصلہ رکھا اور بانسری اور جال لے کر جنگل پہنچ گیا۔ اس نے دن رات ایک کر دیا۔ ایسا عجیب و غریب پرندہ کہاں سے ملتا، لیکن اس کی محنت رنگ لائی اور آخر اس کے جال میں ویسا ہی ایک اور پھنس گیا۔ بہزاد نے پرندہ پکڑا اور اسے لے جا کر بادشاہ کو دے دیا۔ بادشاہ نے پرندہ تو لے لیا، لیکن اسے ایک پیسہ بھی نہ دیا۔ بہزاد سمجھ گیا کہ بادشاہ بھی دکان دار کی طرح ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ چالاک ہے اور یہ بےوقوف۔
بادشاہ تو پرندہ لے کر خوش ہو گیا، لیکن چالاک دکان دار کو بڑا غصہ آیا۔ وہ جانتا تھا کہ بہزاد بہت بہادر، محنتی اور ذہین لڑکا ہے۔ وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس سے بدلہ لے گا۔ اس کا خیال تھا کہ بہزاد دوسرا پرندہ نہیں لا سکے گا اور بادشاہ اسے مروا دے گا، لیکن اسے اب بہزاد سے ڈر لگنے لگا کہ کہیں وہ اس کو کسی مصیبت میں نہ ڈال دے، اس لیے اس نے بہزاد کو پھنسانے کی ایک اور ترکیب سوچی۔ وہ بادشاہ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا: "بادشاہ سلامت! آپ کو شاید معلوم نہیں کہ جو پرندے آپ کو بہزاد لا کر دیتا ہے، ان کی جان ایک پھول میں ہے۔"
بادشاہ نے پوچھا: "وہ کیسے؟"
دکان دار نے کہا: میں نے بڑے بوڑھوں اور عقل مندوں سے سنا ہے کہ یہ پرندے سال میں ایک بار سمن کا پھول ضرور سونگھتے ہیں۔ اگر یہ پھول ان کو سونگھنے کو نہ ملے تو یہ مر جاتے ہیں اور یہ پھول کالے دیو کے باغ میں اگتے ہیں۔"
بادشاہ نے کہا: "لیکن ہمارے پاس یہ پھول کہاں سے آئیں گے؟ کیوں کہ کالا دیو تو اپنے باغ میں کسی کو نہیں آنے دیتا اور کوئی وہاں پہنچ بھی جائے تو وہ اسے مار ڈالتا ہے۔"
دکان دار نے کہا: "حضور! یہ کام تو پورے ملک میں ایک ہی لڑکا کر سکتا ہے۔ اس کا نام بہزاد ہے۔ اسے بلا کر کہیے کہ فوراً سمن کا پھول لے کر آئے۔"
بادشاہ نے پھر وہی کیا، جو دکان دار نے کہا تھا یعنی بہزاد کو بلوا کر کہا: "کالے دیو کے باغ سے سمن نام کا پھول لے کر آؤ، ورنہ میرے پرندے مر جائیں گے۔"
بہزاد نے کہا: "بادشاہ سلامت! میں نے اپنا پرندہ آپ کو دے دیا۔ آپ نے کہا اس کا ساتھی لاؤ، میں نے وہ بھی پکڑ کر لا دیا، لیکن آپ کا یہ حکم عجیب ہے۔ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ کالے دیو کا باغ کہاں ہے؟"
"یہ تم اس دکان دار سے پوچھو۔ اسے سب معلوم ہے۔" بادشاہ نے جواب دیا۔
بہزاد نے کہا: "حضور ! اگر دکان دار اتنا ہی عقل مند ہے اور اسے سب معلوم ہے تو اسی سے کہیے کہ خود سمن کا پھول لے کر آئے۔"
بادشاہ نے کہا: "نہیں، دکان دار کہتا ہے کہ صرف تم ہی یہ کام کر سکتے ہو اور اگر میرے پرندے مر گئے تو میں تمھیں اور تمھاری ماں کر مروا دوں گا۔"
بہزاد سمجھ گیا کہ اس بےوقوف بادشاہ کو کچھ کہنا، دیوار سے سر پھوڑنا ہے اور یہ ساری شرارت دکان دار ہی کی ہے، اس لیے وہ چپ چاپ گھر واپس آ گیا۔ اس نے دماغ لڑانا شروع کیا کہ کیا کیا جائے۔ اس شہر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ وہ بہت عقل مند تھا۔ بہزاد اس کے پاس گیا اور اسے سب کہہ سنایا اور پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ سمن نامی کوئی ایسا پھول ہے جو کالے دیو کے باغ میں اگتا ہے اور اسے سونگھے بغیر وہ پرندے زندہ نہیں رہ سکتے؟ بوڑھے نے کہا: "ہاں یہ سچ ہے۔ یہ پرندے سال میں ایک دن ضرور یہ پھول سونگھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کہیں دور دراز علاقے میں چلے جائیں تو بھی بہار کے موسم میں اس پھول کے پاس ضرور جاتے ہیں، اس لیے کالا دیو اپنے باغ میں یہ پھول ضرور اگاتا ہے۔ اس طرح یہ عجیب پرندے ہر وقت اس کے باغ میں رہتے ہیں۔"
بہزاد نے پوچھا: "اگر میں اس کے باغ سے وہ پھول توڑ لاؤں تو کیا پرندے بھی اس پھول کے پیچھے پیچھے آئیں گے؟"
بوڑھے نے کہا: "ہاں بالکل، لیکن اس پھول تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس باغ کا ایک ہی دروازہ ہے اور اسے کالے دیو کے سوا اور کوئی نہیں کھول سکتا۔"
نہزاد نے کہا: "میں اسے کھول لوں گا۔ بس مجھے آپ اس کا پتا بتا دیجئے۔"
بوڑھے نے اسے کالے دیو کے باغ کا پتا بتا دیا اور یہ بھی کہا کہ بڑے بڑے پہلوان اور بہادر لوگ وہاں گئے تھے، لیکن کوئی بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ دیو بہت طاقت ور ہے۔ تم کوشش کرنا کہ کسی طرح چھپ کر رہو۔ اگر وہ تمھیں دیکھ نہ سکا تو تمھاری جیت ہو گی، ورنہ وہ تمھیں مار ڈالے گا۔ بہزاد نے ہر بات اچھی طرح سمجھ لی اور اگلے دن صبح ہی صبح چل پڑا۔
وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ آخر وہ کالے دیو کے باغ تک پہنچ گیا۔ باغ کا ایک ہی دروازہ تھا، جو بہت بڑا تھا اور بری بڑی چٹانوں کا ملا کر بنایا گیا تھا۔ کئی پہلوان مل کر بھی اس ہلا نہیں سکتے تھے۔ وہ دروازے کے قریب بیٹھ گیا، لیکن وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ اسے فوراً نیند آ گئی۔
اس کی آنکھ شور سے کھلی۔ شور ایسا تھا کہ لگتا تھا کہ جیسے آندھی آ رہی ہے۔ شور قریب آتا جا رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ کالا دیو باغ کے اندر جا رہا ہے۔۔ وہ فوراً چھپ گیا۔ دیو اسے نہ دیکھ سکا اور اس کے قریب سے گزر گیا۔ بہزاد کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی پہاڑ اس کے برابر سے گزر کر جا رہا ہے۔ دیو نے باغ کا دروازہ کھولا۔ بہزاد سانس روکے دبے پاؤں اس کے پیچھے پیچھے چلا اور جیسے ہی وہ باغ کے اندر گیا، بہزاد بھی اندر چلا گیا اور فوراً ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔ جنگل میں پرندے پکڑنے کے کام میں اسے بہت دیر تک ہلے جلے بغیر چھپ کر رہنا پڑتا تھا، یہ عادت اسے یہاں بہت کام آئی۔ دیو کو پتا بھی نہیں چلا کہ کوئی اس کے پیچھے پیچھے باغ کے اندر آ گیا ہے۔
وہ باغ بہت خوبصورت تھا۔ اس میں عجیب عجیب رنگ کے ایسے پھول تے کہ بہزاد دنگ رہ گیا۔ اس میں ایسے پرندے تھے جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بہزاد رات کو وہیں چھپا رہا۔ صبح کالا دیو پھر باہر آیا۔ شاید وہ شکار کی تلاش میں جا رہا تھا۔ جب دیو چلا گیا تو بہزاد جھاڑی کے پیچھے سے نکلا اور باغ میں سمن نام کا پھول تلاش کرنے لگا۔ اسے وہاں ویسے ہی پرندے بھی نظر آئے جیسے اس نے بادشاہ کو دیے تھے، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ سمن کون سا پھول ہے۔ وہاں تو ہر طرح کے پھول تھے۔
باغ میں گھومتے گھومتے اسے ایک بہت بڑا مکان نظر آیا۔ دیو اس میں رہتا تھا۔ بہزاد اس کے اندر چلا گیا۔ اس مکان میں چالیس کمرے تھے۔ ہر کمرا دوسرے سے بڑھ کر خوب صورت تھا، لیکن پورے مکان میں کوئی نہیں تھا۔ آخر جب وہ چالیسویں کمرے میں پہنچا تو اسے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے لگا کہ آواز قالین کے نیچے سے آ رہی ہے۔ اس نے قالین اٹھایا تو فرش میں ایک دروازہ بنا ہوا تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو سیڑھیاں زمین کے اندر جا رہی تھیں۔ وہ سیڑھیاں اتر کر اندر چلا گیا۔ نیچے ایک تنگ اور اندھیرا کمرا تھا۔ رونے کی آواز تیز ہو گئی تھی۔ بہزاد نے غور سے دیکھا تو اندھیرے میں ایک لڑکی نظر آئی، جو ہوا میں لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے لمبے لمبے بال چھت میں ایک کنڈے سے بندھے ہوئے تھے اور وہ رو رہی تھی۔ بہزاد کو دیکھ کر بولی: "ارے لڑکے! تم یہاں کیسے آ گئے؟ تم ہو کون؟ فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ اگر کالا دیو آ گیا تو تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔"
بہزاد نے کہا:"تم فکر نہ کرو۔ وہ باہر گیا ہوا ہے۔ یہ بتاؤ تم کون ہو؟"
"میرا نام چندا ہے۔ وہ منحوس دیو مجھے کئی سال پہلے اٹھا لایا تھا۔ تب سے میں یہاں قید ہوں۔"
بہزاد نے اس کے بال کھول کر اسے نیچے اتارا۔ اس نے پر پوچھا:"تم کون ہو اور یہاں کیوں اور کیسے آئے ہو؟" بہزاد نے پوری بات بتائی کہ وہ کس طرح سمن کے پھول کی تلاش میں آیا ہے اور اگر پھول نہ ملا تو بادشاہ اس کی ماں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
چندا نے کہا: "سمن نام کا پھول سب سے پہلے میں نے اگایا تھا۔ اگر تم مجھے یہاں سے نکال کر لے جاؤ تو میں تمھیں سمن اگا کر دوں گئ۔ پھر سارے پرندے تمھارے پاس آیا کریں گے۔" اس نے بتایا کہ کالا دیو کے اصطبل میں تیز گھوڑے بھی ہیں۔ بہزاد اصطبل گیا اور اس نے دو گھوڑے کھول لیے۔ دونوں ان پر سوار ہو گئے۔ چندا کو معلوم تھا کہ باغ میں ایک پتھر کو دبانے سے باغ کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح دونوں دروازہ کھول کر گھوڑوں پر سوار وہاں سے نکل بھاگے۔
گھوڑے بھگاتے بھگاتے دونوں بہزاد کے شہر پہنچ گئے۔ بہزاد کی ماں دونوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ دونوں کو گلے لگایا، کھانا کھلایا، پھر پوچھا:"یہ بتاؤ! جو پھول تم لینے گئے تھے، وہ ملا بھی یا نہیں؟"
بہزاد نے پوچھا: "امی! جب میں گیا تھا تو میں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں پھول لینے گیا تھا؟"
امی نے بتایا: "بادشاہ کے سپاہی روز آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بہزاد پھول لے کر آیا کہ نہیں۔"
اتنے میں بادشاہ کے سپاہی آ گئے اور پوچھا : تم پھول لائے یا نہیں؟" اس سے پہلے کہ وہ جواب میں کچھ کہتا، چندا نے کہا: "ہاں لے آیا ہے۔ تھوڑی دیر میں خود بادشاہ کے پاس پھول لے کر جائے گا۔" بادشاہ کے سپاہی چلے گئے تو چندا نے چاقو لے کر اپنی انگلی میں چیرا لگایا۔ خون کے دو قطرے نکلے اور نکل کر پھول بن گئے۔ چندا نے کہا: "دیو کو معلوم تھا کہ میں اس طرح سمن کے پھول بنا سکتی ہوں، اس لیے وہ مجھے قید رکھتا تھا۔ اب یہ پھول بادشاہ کے پاس لے جاؤ۔"
جب وہ پھول لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا تو پرندے اداس تھے، انھوں نے چہچہانا بند کر دیا تھا۔ پھول دیکھتے ہی پرندوں میں جیسے جان پڑ گئی۔ وہ پھر سے بولنے لگے۔ بادشاہ خوش ہو گیا۔ لیکن چالاک دکان دار یہ دیکھ کر جل گیا کہ بہزاد پھر کامیاب ہو گیا۔ اس نے بادشاہ سے کہا: "بادشاہ سلامت! یہ پھول تو مرجھا جائیں گے، کیوں کہ پودوں میں لگے ہوئے نہیں ہیں۔ بہزاد سے کہیے کہ وہ سمن کا پودا لے کر آئے، جس میں پھول لگے ہوں۔"
بادشاہ نے کہا: "یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تم کالے دیو کے باغ میں پھر جاؤ اور وہاں سن کے پھولوں والا پودا اکھاڑ لاؤ۔" اب بہزاد نے سوچ لیا تھا کہ بادشاہ اور دکان دار دونوں کو شرارتوں کا مزہ چکھائے گا۔ اس نے کہا:
"حضور! یہ پھول کالے دیو کے باغ میں نہیں لگتے۔ یہ تو ایک ایسے شہر میں ہوتے ہیں جو بالکل ہمارے شہر کی طرح ہے۔ بلکہ اس کا نام بھی وہی ہے جو ہمارے شہر کا ہے۔ جو لوگ مر جاتے ہیں، وہ اس شہر میں رہتے ہیں۔ ان سب لوگوں کے بادشاہ آپ کے والد ہیں، جن کا انتقال ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ جب میں یہ پھول لینے اس شہر پہنچا اور آپ کا نام لے کر بتایا کہ آُ نے پھول منگوائے ہیں تو آپ کے والد بہت روئے اور کہنے لگے کہ میرا بیٹا کود مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتا۔ اگر میں تمھیں اس کا پودا دے دوں گا تو وہ مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے گا۔ ابھی پھول لے جاؤ جب وہ خود آئے گا تو میں اسے ڈھیر ساری دولت بھی دوں گا۔"
اس کے بعد وہ چالاک دکان دار کی طرف مڑا اور کہا: "اور جناب! آپ کے والد بھی وہاں تھے۔ انھوں نے آپ کے لیے وہاں بہت سے سونے کے سکے جمع کیے ہوئے ہیں۔"
چالاک دکان دار سمجھ گیا کہ بہزاد ان کو پھانسنے کے لیے باتیں بنا رہا ہے، لیکن بےوقوف بادشاہ نے حکم دیا: " فوراً تیاری کی جائے۔ ہم ابھی وہاں چلیں گے۔"
بہزاد نے کہا : " چلیے! میں آپ کو لے چلتا ہوں۔"
وہ ان کو لے کر دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ دریا پر پہنچ کر بہزاد نے کہا: "اس شہر کا راستہ اس دریا کی تہہ میں ہے۔ آپ دریا میں چھلانگ لگا دیجیئے۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر آپ وہاں کھڑے ہو جائے گا اور سو تک گنیے گا۔ سو تک گننے کے بعد دریا کی تہہ میں ایک دروازہ کھلے گا اور آپ اس شہر میں داخل ہو جائیں گے۔"
بےوقوف بادشاہ دریا میں چھلانگ لگانے کو تیار ہو گیا، لیکن چالاک دکان دار نے کہا: "ٹھہریے! یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر یہ سچا ہے تو پہلے یہ خود چھلانگ لگائے اور دریا کی تہہ میں پہنچ کر اس شہر میں جائے اور وہاں سے سمن کے پھول لے کر آئے۔ تب ہم مانیں گے اور چھلانگ لگائیں گے۔"
"ہاں، بات تو آپ کی صحیح ہے، لیکن جا میں تھکا ہوا ہوں۔ آگر آپ اجازت دیں تو کل تک آرام کر لوں! کل شام کو میں آپ کو سمن لا کر دکھا دوں گا۔" بہزاد نے کہا۔ وہ دونوں مان گئے۔ سب واپس آئے۔
بہزاد گھر گیا۔ چندا نے انگلی کاٹ کر خون کی بوندیں ٹپکائیں تو وہ سمن کے پھول بن گئے۔ بہزاد نے سونے کے وہ سکے بھی پھولوں کے ساتھ لے لیے جو وہ دیو کے مکان سے اپنے ساتھ لایا تھا اور دریا پر پہنچ گیا۔ کشتی کے ذریعے اس نے دریا پار کیا اور دوسرے کنارے پر ایک تھیلے میں سب چیزیں ایک درخت میں چھپا دیں۔ یہ کام کر کے وہ واپس گھر آ گیا۔
اگلے دن شام کو سب لوگ دریا کے کنارے جمع ہو گئے۔ بہزاد نے انھیں کنارے پر انتظار کرنے کو کہا اور خود دریا میں چھلانگ لگا دی۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا، اسی لیے جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر چپکے سے باہر نکلا اور درخت پر چڑھا تو کوئی اسے دیکھ نہ سکا۔ وہاں سے اس نے تھیلا لیا اور دریا تیر کر پار کر لیا۔ واپس کنارے پہنچ کر اس نے بادشاہ کو پھول اور چالاک دکان دار کو سونے کے سکے دے کر بولا: "یہ آپ کے والد صاحب نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ایسے بہت سارے سکے میرے پاس ہیں۔ اگر وہ خود آئے تو میں اسے سب دے دوں گا۔"
سونے کے سکے دیکھ کر دکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور لالچ نے اسے اندھا کر دیا۔ اس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی۔ بادشاہ بھلے کیوں پیچھے رہتا، وہ بھی کود پڑا۔ دریا کے کنارے کھڑے لوگوں نے بہت دیر انتظار کیا، لیکن دونوں واپس نہ آئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی لاشیں پانی میں تیرتی ہوئی ملیں۔ اس طرح بادشاہ کو اپنی بےوقوفی اور دکان دار کو اپنی چالاکی کی سزا مل گئی۔ اس کے بعد بہزاد کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی۔
No comments
Post a Comment
Search This Blog
Powered by
Blogger
.
Blog Archive
November 2018
(10)
October 2018
(109)
September 2018
(7)
August 2018
(10)
April 2017
(7)
January 2017
(84)
December 2016
(298)
November 2016
(193)
October 2016
(140)
October 2015
(2)
September 2014
(1)
September 2012
(4)
October 2010
(2)
Labels
Aadat Poetry
Aanchal Poetry
Ability English Quotes
About
Ada Poetry
Advice English Quotes
Advice Urdu Quotes
Ahitbaar Poetry
Ahmad Faraz Poetry
Ahsaan Poetry
Ahsaas Poetry
Albert Einstein Quotes
Alfred Mercier Quotes
Allama Muhammad Iqbal (RA) Poetry
Alvida Poetry
Amjad Mir khan Poetry
Andaz Poetry
Ankhen Poetry
Anniversary Quotes
Ansoo Poetry
Arzoo Poetry
Asghar Mir poori Poetry
Ataullah Khan Ghazals
Atif Saeed Poetry
Audio Videos Ghazals
Awara Poetry
Bad-Dua Poetry
Badnaseeb Poetry
Barbadi Poetry
Barish Poetry
Be-Qadri Poetry
Be-Rukhi Poetry
Be-wafa Poetry
Best Love Poems with Romantic Pictures
Best Urdu Ghazals.Pankaj Udhas Ghazals
Bhool Poetry
Bicharna Poetry
Birthday Quotes
Broken Heart Poems
Broken Heart Quotes
Chahat Poetry
Chand Poetry
Chand Raat Poetry
Childrens Quotes
Condescension (اخلاق) Quotes
Contact Us
Cute Love Quotes For Him
Daag Dehelwi Poetry
Dar-Badar Poetry
Dard Poetry
Darr Poetry
Dastan Poetry
December Poetry
Deedar Poetry
Deewana Poetry
Desire Urdu Quotes
Destiny Urdu Quotes
Dharkan Poetry
Dhoka Poetry
Dil Lagi Poetry
Dil Poetry
Dilchasp or Ajeeb
Dosti Poetry
Dua Poetry
Dukh Poetry
Dunya Poetry
Dunya Urdu Quotes
Education English Quotes
Eid Mubarak Wishes
Eid Poetry
Emily Dickinson Poems
Endure (برداشت ) Quotes
English for Her
English Poems
English Poems for her
English Quotes
Faiz Ahmad Faiz Poetry
Faryad Poetry
Father English Quotes
Father Urdu Poetry
Fathers Quotes
feeling English Quotes
Fikar Poetry
Flower Images
for Him From the Heart Quotes
Forgiveness Urdu Quotes
Four Line Poetry
Frederick Douglass Quotes
Friendship Quotes
Friendship Urdu Quotes
Ghalty Poetry
Ghum Poetry
Greetings & Gift Cards
Haar Poetry
Habib jalib Poetry
Hamsafar poetry
Hansana Poetry
Happiness English Quotes
Happiness Urdu Quotes
Happy Teachers Day Quotes
Hasrat Mohani Poetry
Hasrat Poetry
Haya Poetry
Heaven Urdu Quotes
Hope Urdu Quotes
Humanity Urdu Quotes
Hurt Poems
Husan Poetry
I Love You Poems
Ibe-Insha Poetry
ilzaam Poetry
images
Imam Gazali R.A Quotes
Imprecation Urdu Quotes
Inspirational English Quotes
Inspirational Quotes
Inspirational Urdu Poetry
Inthikhab Poetry
Intizaar Poetry
Ishq Poetry
Islamic English Quotes
Islamic Poetry
Islamic Urdu Quotes
Jaan Poetry
January Month Poetry
Jazbaat Poetry
Jeena Marna Poetry
Jokes
Jon Elia Poetry
Judai Poetry
Jurm Poetry
Khalid Durwaish Poetry
Khamoshi Poetry
Khamoshi Urdu Quotes
Khawab Poetry
Khawaish Poetry
khayal Poetry
Khloe Thompson Quotes
Khubi Poetry
Khuloos Poetry
Khushi Poetry
Kirdar Poetry
Life English Quotes
Life Poems
Life Urdu Quotes
Lolly Daskal Quotes
Love English Poems
Love Poems
Love Quotes
Love Quotes for Her
Love Quotes for Him
Love Quotes Images
Love Romantic Poems
Maan Poetry
Maan Shayari
Magroor Poetry
Majboor Poetry
Manizil Poetry
Marna Poetry
Martin Luther King Jr. Quotes
Maulana Jalal-ud-din Rumi Quotes
Max Muller Quotes
Mehdi Hassan Ghazals
Mirza Ghalib Poetry
Modesty (خاکساری) Quotes
Mohsin Naqvi Poetry
Mohsin Poetry
Mosam Poetry
Mother
Mothers Quotes
Mout Poetry
Muhabbat Poetry
Muhabbat Urdu Quotes
Mulaqat Poetry
Munafaqat Poetry
Munir Niazi Poetry
Muskarahat Poetry
Nafrat Poetry
Narazgi Poetry
Naseeb Poetry
Nature Images
Nature Wonders
Nidamat poetry
Nigah Poetry
November Poetry
Pagal Poetry
Pakistani Places
Palkain Poetry
Parents Urdu Quotes
Parveen Shakir Poetry
Patience Urdu Quotes
Payar Poetry
Poems About Love and Pain
Prayer Urdu Quotes
PTCL Bill Check
Qais Ali Poetry
Qasam Poetry
Qasoor Poetry
Qateel Ahmad Shifai Poetry
Qayamat Poetry
Qismat Poetry
Quran Verses Quotes
Raat or Din Poetry
Ranjish Poetry
Relation Urdu Quotes
Respect Urdu Quotes
Rich & Poor Urdu Quotes
Romantic Poems
Romantic Poetry
Rona Poetry
Rooh Poetry
Roothna Poetry
Ruswai Poetry
Saadat Saeed Poetry
Sabar Poetry
Sad English Quotes
Sad Poems
Sad Poetry
Sadgi Poetry
Sanam Poetry
Saqi poetry
Sara Teasdale Poems
Shaam Poetry
Shikayat Poetry
Shikwa Poetry
Sitam Poetry
Smile English Quotes
Smile Poems
SNGPL Bill Check
Struggle Urdu Quotes
Subah Poetry
Surah Al Mulk
Surah Ar Rahman
Surat Poetry
Tamasha Poetry
Tanhai Poetry
Taqdeer Poetry
Teachers Quotes
Thomas Carlyle Quotes
Tilawat-e-Quran video
Time English Quotes
Time Urdu Quotes
Trust English Quotes
Truth Urdu Quotes
TV Channels
Two Line Poetry
Udaas Poetry
Umeed Poetry
Urdu Character Quotes
Urdu Dua Quotes
Urdu Ghazals
Urdu Hadith Mubarak
Urdu Heart Touching Poetry
Urdu Jokes
Urdu Poetry
Urdu Quotes
Urdu Stories
Wada Poetry
Wafa Poetry
Waqt Poetry
Wasi Poetry
Wealth Urdu Quotes
Wisdom Poems
Wisdom Urdu Quotes
Wise English Quotes
Women Quotes
Yaad Poetry
Yaqeen Poetry
Zakham Poetry
Zamana Poetry
Zaroorat Poetry
Zid Poetry
Zindagi Poetry
Report Abuse
Nafraton ke teer
Nafraton ke teer Kha Kar Doston ke Sheher humne Kis Kis ko Pukaraa, yeh Kahani Phir sahi
Hazar Jaam Tasaduq . Hazar Mai Khane
Hazar Jaam Tasaduq . Hazar Mai Khane Nigah-e-Yaar ki Lazzat , Sharab Kia Jane
Uski Woh Jane
Uski Woh Jane use Pass-e-Wafa tha ka na tha tum Faraz apni taraf se tu Nibhate jate
About Me
ZAHID IQBAL
View my complete profile
Follow Us on
snapchat
stack-overflow
behance
android
apple
pinterest
instagram
youtube
twitter
facebook
favourite category
...
test section describtion
Whatsapp Button works on Mobile Device only
Post a Comment