محمد بن اسحاق میں محمد بن کعب سے روایت کیاگیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ نجران کے باشندے بت پرستی اور شرک میں مبتلا تھے۔ان کے قریب کی آبادی میں ایک ساحر رہتا تھا جو نجران کے لڑکوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتا تھا۔کچھ عرصہ بعد نجران اور ساحر کی بستی کے درمیان ایک زاہدومجاہد اور صاحب کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیون آکر رہنے لگا۔نجران کے جو لڑکے ساحر سے سحر کی تعلیم حاصل کرتے تھے ان میں ایک لڑکا عبداللہ بن تامر بھی تھا۔ایک روزوہ عیسائی راہب کے خیمے میں چلا گیا۔راہب نماز میں مشغول تھا۔عبداللہ کو راہب کی نماز اور طریق عبادت پسند آیا اور اس کے پاس آنے جانے لگا اوراس سے اس کے دین کو سیکھنا شروع کر دیا۔راہب سے سچی مسیحیت کی تعلیم حاصل کرکے وہ عالم دین بن گیا اور اس دین کی تبلیغ شروع کردی۔وہ لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ۔اسکی دعا سے مریض بھلے چنگے ہو جاتے ۔نجران کے بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے لڑکے کو بلایااور کہا کہ تو نے میری مملکت میں فساد مچا دیا اورمیرے باپ دادا کے دین کی مخالفت شروع کردی اس لئے اب تیری سزا یہ ہے کہ تجھ کو قتل کردیا جائے۔
لڑکا کہنے لگا”اے بادشاہ!میرا قتل تیری قدرت سے باہر ہے“بادشاہ نے غضب ناک ہو کر حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کی چوٹی سے گرا دو۔سرکاری اہلکاروں نے حکم کی تعمیل کی لیکن قدرت الٰہی نے اس کو صحیح سالم رکھا۔بادشاہ نے جھلا کر حکم دیا کہ اس کو دریا میں لے جا کر غرق کردو لیکن دریا بھی لڑکے کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔تب لڑکے نے بادشاہ سے کہاکہ اگر تو واقعی مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تو خدائے واحد کا نام لیکر مجھ پر حملہ کر۔بادشاہ نے خدا ئے واحد کا نام لیکر لڑکے پر حملہ کیا تو لڑکا جاں بحق ہوگیا مگر ساتھ ہی عذاب الٰہی نے بادشاہ کو بھی اسی جگہ ہلاک کردیا۔
نجران میں عیسائیت کی ترویج اور لڑکے اور راہب کے واقعے کا تذکرہ یمن کے بادشاہ ذونواس تک پہنچاتو وہ سخت آگ بگولا ہوا۔مذہباً وہ یہودی تھااور عیسائیت اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔وہ ایک لشکر جرار لے کر نجران پہنچا اور تمام شہر میں منادی کرادی کہ کوئی شخص عیسائیت پر قائم نہیں رہ سکتا۔یا تو ہر شخص یہودیت قبو ل کرے ورنہ مرنے کیلئے تیار ہو جائے۔اہل نجران کے دلوں میں سچا دین اس درجے گھر چکا تھا کہ انہوں نے مر جانا قبول کیا مگر اپنے دین سے پھر جانا گوارا نہ کیا۔ذونواس نے یہ دیکھا توغیض و غضب کے عالم میںحکم دیا کہ شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کے کنارے خندقیں اور کھائیاں کھودی جائیں اور ان میں آگ دہکائی جائے۔جب لشکریوں نے تعمیل کردی تو اس نے شہریوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ جو شخص یہودیت قبول کرنے سے انکار کرے مردد ہو یا عورت یا بچہ اسکو زندہ آگ میں ڈال دیا جائے۔چنانچہ اس حکم کے مطابق بیس ہزار کے قریب اہل ایمان کو جام شہادت پینا پڑا۔
حدیث کی کتابوں مسلم ،نسائی،ترمذی اور مسند احمد میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اسی طرح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اس جان گسل اور ہولناک نظارے کو بادشاہ اور اس کے مصاحبین مسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ ایک عورت لائی گئی جس کی گود میں شیر خوار بچہ تھا۔عورت بچے کی محبت میں جھجکی۔فوراً بچے نے کہا،”ماں!صبر سے کام لے اور خندق میں کود جا اس لئے کہ بلا شبہ تو حق پر ہے اور یہ ظالم باطل پر ہیں“۔
نجران کے واقعے میں ایک شخص دوس ذوثعلبان کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلا اور شام میں مقیم قیصر روم کے دربار مین پہنچ کر نجران کے حادثے کی ہوش ربا داستان سنائی۔قیصر نے فوراً حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ وہ اس ظلم کا انتقام لے۔حبش کی۰۷ ہزار فوج ارباط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آوار ہوئی ۔ذونواس مارا گیا ۔یہودی حکومت کا خاتمہ ہوا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔یہ واقعہ ۵۲۵ءیعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً پینتالیس سال پہلے پیش آیا۔
لڑکا کہنے لگا”اے بادشاہ!میرا قتل تیری قدرت سے باہر ہے“بادشاہ نے غضب ناک ہو کر حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کی چوٹی سے گرا دو۔سرکاری اہلکاروں نے حکم کی تعمیل کی لیکن قدرت الٰہی نے اس کو صحیح سالم رکھا۔بادشاہ نے جھلا کر حکم دیا کہ اس کو دریا میں لے جا کر غرق کردو لیکن دریا بھی لڑکے کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔تب لڑکے نے بادشاہ سے کہاکہ اگر تو واقعی مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تو خدائے واحد کا نام لیکر مجھ پر حملہ کر۔بادشاہ نے خدا ئے واحد کا نام لیکر لڑکے پر حملہ کیا تو لڑکا جاں بحق ہوگیا مگر ساتھ ہی عذاب الٰہی نے بادشاہ کو بھی اسی جگہ ہلاک کردیا۔
نجران میں عیسائیت کی ترویج اور لڑکے اور راہب کے واقعے کا تذکرہ یمن کے بادشاہ ذونواس تک پہنچاتو وہ سخت آگ بگولا ہوا۔مذہباً وہ یہودی تھااور عیسائیت اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔وہ ایک لشکر جرار لے کر نجران پہنچا اور تمام شہر میں منادی کرادی کہ کوئی شخص عیسائیت پر قائم نہیں رہ سکتا۔یا تو ہر شخص یہودیت قبو ل کرے ورنہ مرنے کیلئے تیار ہو جائے۔اہل نجران کے دلوں میں سچا دین اس درجے گھر چکا تھا کہ انہوں نے مر جانا قبول کیا مگر اپنے دین سے پھر جانا گوارا نہ کیا۔ذونواس نے یہ دیکھا توغیض و غضب کے عالم میںحکم دیا کہ شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کے کنارے خندقیں اور کھائیاں کھودی جائیں اور ان میں آگ دہکائی جائے۔جب لشکریوں نے تعمیل کردی تو اس نے شہریوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ جو شخص یہودیت قبول کرنے سے انکار کرے مردد ہو یا عورت یا بچہ اسکو زندہ آگ میں ڈال دیا جائے۔چنانچہ اس حکم کے مطابق بیس ہزار کے قریب اہل ایمان کو جام شہادت پینا پڑا۔
حدیث کی کتابوں مسلم ،نسائی،ترمذی اور مسند احمد میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اسی طرح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اس جان گسل اور ہولناک نظارے کو بادشاہ اور اس کے مصاحبین مسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ ایک عورت لائی گئی جس کی گود میں شیر خوار بچہ تھا۔عورت بچے کی محبت میں جھجکی۔فوراً بچے نے کہا،”ماں!صبر سے کام لے اور خندق میں کود جا اس لئے کہ بلا شبہ تو حق پر ہے اور یہ ظالم باطل پر ہیں“۔
نجران کے واقعے میں ایک شخص دوس ذوثعلبان کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلا اور شام میں مقیم قیصر روم کے دربار مین پہنچ کر نجران کے حادثے کی ہوش ربا داستان سنائی۔قیصر نے فوراً حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ وہ اس ظلم کا انتقام لے۔حبش کی۰۷ ہزار فوج ارباط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آوار ہوئی ۔ذونواس مارا گیا ۔یہودی حکومت کا خاتمہ ہوا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔یہ واقعہ ۵۲۵ءیعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً پینتالیس سال پہلے پیش آیا۔
Post a Comment